( PRIZE BOND ) کی شرعئی حیثیت
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
انعامی بانڈ ( PRIZE
BOND
) کی شرعئی حیثیت
پرائز بانڈ جدید دور
میں سود اور جوے کا مرکب ہے اور اسلام میں نہ سود کے لیے کوئی جگہ ہے نہ جوا کی
کوئی نوع جائز ہے،اس طریقے میں حکومت اپنی ضرورت کے پیش نظر متعین رقوم کے بدلے
خاص متبادل بیچتی ہے، جبکہ اصل رقوم حکومت کو وصول ہو جاتی ہے۔اس طرح اپنی ضرورت
کے مطابق حکومت اس رقم کو استعمال کرتی ہے۔ پرائزبونڈ کا خریدار جب چاہے اپنی اصل
رقم واپس لے کر یہ پرائز بونڈ فروخت کر سکتے ہیں۔ پھر قرعہ اندازی کر کے بعض افراد
کو مخصوص انعامات دیے جاتے ہیں۔ حقیقت میں انعام کی یہ رقم وہ سود ہوتی ہے جو
حکومت عوام کی رقم اپنے پاس رکھ کر حاصل کرتی ہے، پھر تمام حاملین پرائز بونڈ کو
منافع(سود) کی یہ رقم دینے کی بجائے بعض لوگوں کو انعام کی شکل میں دے دی جاتی ہے۔
ایسی انعامی رقم عین سود ہے، فقط نام تبدیل کر کےعوام کو اس میں مشغول کیا جاتا
ہے۔ پھر اکثر لوگوں کو چھوڑ کر صرف چند لوگوں کو منافع کا حقدار قرار دیا جاتا
ہے۔جس کی شاخیں جوئے سے ملتی ہیں۔
عوام کو اس سے لالچ یہ ہوتی ہے کہ جب چاہیں گے پرائز بونڈ فروخت کر کے اپنی اصل رقم حاصل کر لیں گے۔ اوراگر انعام نکل آیا تو مفت کا منافع بھی ہے۔ یاد رہے حرام کے لیے حیلہ کرنا بھی اسلام میں جائز نہیں،لہذا سود اور جوا خواہ اپنی اصل کیفیت میں ہوں یا شکل و صورت بدل کے میسر ہوں دونوں انداز سے حرام ہیں ان سے پچنا دین و ایمان کی حفاظت ہے۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیمیں شرعاً ناجائز اور حرام ہیں کیوں کہ یہ جوئے کی مختلف اقسام ہیں جسے قرآن نے حرام پلید اور شیطانی عمل قراردیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بلاشبہ شراب جوا بتوں کے نام کی چیزیں اور تیروں کے زریعے قسمت آزمائی پلید اور شیطانی کام ہیں۔ان سے پرہیز کرو۔''(5/المائدۃ :90)
دور جاہلیت میں جوئے کی متعدد صورتیں تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ کعبہ میں رکھے ہوئے چند مخصوص تیروں کے زریعے مشترکہ مال تقسیم کیاجاتا تھا۔ اس طرح کہ قرعہ اندازی کے زریعے جو تیر جس کے نام نکل آیا اور اس پرجتنا حصہ لکھا ہوتا وہ اسے مل جاتا بعض خالی تیر نکلنے کی صورت میں وہ شخص بالکل محروم رہتا ایسا کرنے سے کچھ لوگ حصہ پاتے اور کچھ بالکل تہی دست رہتے۔اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن کی نظر میں اس قسم کے تمام کام حرام ہیں۔جن میں تقسیم کا دارومدار کسی ایسے امر پررکھاجائے جس کے زریعے دوسروں کا مال کسی ایک شخص یا چند اشخاص کی جیبوں میں چلاجائے۔دریافت کردہ انعامی سکیموں میں یہ خرابی بدرجہ اتم موجود ہے۔لہذا ان کے حرام اور ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں
امام ابوبکر حصاص حضرت ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ''مخاطر وجوا ہے۔''(احکام القرآن :ص 1/329)
دوسرے مقام پر جوئے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:
''جوئے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو فکر اور اندیشے کی بنا پرمال کا مالک بنادیا جائے۔(احکام القرآن :ج11'465)
یعنی نتائج سے قبل کسی موہوم خطرہ کے پیش نظر فکر اور اندیشے میں مبتلا ہونا ہے۔ کہ اسے کیا ملے گا۔کم یازیادہ یا محروم رہے گا۔جو ئے میں جو رقم ملتی ہے۔وہ محنت یا کسی خدمت کا صلہ نہیں ہوتی۔بلکہ محض اتفاقی امور پر ا س کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔بعینہ یہ صورت حال انعامی سکیموں میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ اسے انعام کہہ کر جائز سمجھتے ہیں حالانکہ اس طرح کسی کو دی جانے والی رقم کو کسی صورت میں انعام نہیں کیاجاسکتا کیونکہ :
1۔انعام حسن کی کارگردگی یا اعلیٰ خدمات کاصلہ ہوتا ہے جبکہ اس میں ایسا نہیں ہوتا۔
2۔انعام حاصل کرنے والے سے کچھ وصول نہیں کیا جاتا جبکہ انعامی سکیموں میں شمولیت کے لئے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔
3۔انعام میں کچھ وجوہ ترجیح ہوتی ہے۔ جب ان سکیموں میں کامیابی کی بنیاد محض ''اتفاق'' ہے۔
اس کاروبار کے حرام ہونے کے لئے یہ کافی ہے۔کہ اس میں جمع شدہ رقم سے کچھ حصہ تقسیم کرکے باقی رقم ہڑپ کرجانا لوگوں کا مال ناجائز زرائع سے کھانا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سےمنع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔''(4/النساء :29)
لہذا جن حضرات نے سے جوئے کی قسم قرار دیتے ہوئے حرام اور ناجائز کہا ہے وہ برحق اور ان کا موقف بالکل صحیح اور درست ہے۔قسمت آزمائی کا سہارا لےکر اسے درست کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ قسمت آزمائی جس کی بنیاد محض و وہم گمان اور اتفاقی امر پر ہو وہ ناجائز ہے جیسا کہ قرآن کریم میں تیروں کے زریعے قسمت آزمائی کو حرام ٹھرایا گیا ہے فرمان ربانی ہے:
''تمہارے لئے یہ بھی حرام ہے۔ کہ تم پانسوں کے زریعے اپنی قسمت معلوم کرو۔''(5/المائدہ :3)
اس کے علاوہ اسلام میں قرعہ اندازی کی و سادہ سی صورت کو جائز کہا
گیا ہے جس میں دو مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان فیصلہ کیاجاتا ہے۔لہذا ایسی
قرعہ اندازی جس میں قرعہ ڈالنے والوں کے حقوق مساوی نہ ہوں بلکہ صرف سکیم میں
شمولیت کی وجہ سے ان کا حق تسلیم کیا جائے اسے کماراور جوا کہا جاتاہے۔ ایک مسلمان
کے لئے ان سے بچنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص264
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
انعا می با نڈ میں جو ا اور سود کی دونوں صورتیں مو جو د ہیں جوا
اس لیے کہ کھا تہ میں جمع شدہ رقم اس انعا م کا ذریعہ بنی ہے جو کسی کا ر نا مہ کا
صلہ نہیں بلکہ بلا محنت بخت و اتفاق سے ہا تھ لگ گئی ہے یہی جوا کی تعریف ہے دوسری
طرف جس ادارہ میں یہ رقم جمع ہو تی ہے وہ اسے سودی کا رو با ر پر صرف کرتا ہے قرعہ
کی مدت کے دورا ن وہ بہت ساری رقم جمع کر لیتا ہے جس کی معمولی سودی نسبت بجا ئے
سب حصہ داروں پر تقسیم کر نے کے چند افرا د کی جھو لی میں انعا م کے طو ر پر ڈال
دی جا تی ہے اس میں سود کی شرح بھی متعین ہو تی ہے جب کہ افراد کا تعين علي السبيل
البدل ذہنی ہو تا ہے اور مخصوص رقم جمع کرا نے والا چو نکہ سودی کا رو با ر میں
معا و نت کا سبب بنا ہے لہذا وہ بھی مجرم ٹھہرا ۔ با قی رہا جو ئے کی علا ما ت میں
سے اصل زر کا تلف ہو نا سویہ صرف ایک مفروضہ ہے اس کا وقعا ت و حقا ئق سے کو ئی
تعلق نہیں
فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ/ج1/ص546
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
انعامی بانڈز میں سود ، جوا ، بیع ما لا یملک ، تینوں قباحتیں شامل ہیں ۔
پاکستانی حکومت جو یہود کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے سود ستان بناتی چلی جارہی ہے اس رقم کو سودی و غیر سودی کارو بار میں لگاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود کو لفظ "انعام" استعمال کر کے مختلف افراد میں تقسیم کرتی ہے۔
لہذا اس میں سود کا گند بھی شامل ہے ۔
اسی طرح جوئے کی جسطرح اور بہت سی اقسام ہیں انہی میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ مختلف افراد ایک جیسی رقم ایک ہی کام پر لگائیں اور ان میں سے کسی کو منافع زیادہ حاصل ہو اور کسی کو کم یا کسی کو ملے اور کسی کو نہ ملے ، پرائزبانڈز میں یہی عمل کار فرما ہوتا ہے لہذا اس میں جوا بھی ہے ۔
اور پھر ان پرائز بانڈز کو آگے سے آگے بیچا جاتا ہے ۔ یعنی اصل زر بائع کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اسکی رسید ہوتی ہے اور وہ اس رسید کو ہی فروخت کردیتا ہے۔
یہ بھی شریعت اسلامیہ میں ممنوعہ کام ہے ۔
ان تین بڑی بڑی قباحتوں کی بناء پر یہ بانڈز اور انکا کارو بار
ناجائز و حرام ہیں ۔
فتوی کمیٹی
۔╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼╼
انعامی بانڈز بیچ کر درحقیقت حکومت عوام سے قرض لیتی ہے، اور بانڈز کے نام سے قرض کی رسید جاری کرتی ہے ، قرض دینے پر لوگوں کو آمادہ کرنے کیلئے حکومت نے یہ اسکیم بنائی ہے، کہ پرائز بانڈ خرید نے والوں کو ان کی اصل رقم کی واپسی کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی بطور انعام دی جاتی ہے ،لیکن تمام قرض دہندگان کو نہیں، بلکہ وہ رقم بذریعہ قرعہ اندازی بعض خریداروں کو دی جاتی ہے ، اس میں سے جو رقم ملتی ہے ،وہ یقینی طور پرسود ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
اس میں سود ، جوا ، بیع ما لا یملک ، تینوں قباحتیں شامل ہیں ۔حکومت عوام سے لی گئی اس رقم کو سودی و غیر سودی کاروبار میں لگاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود کو لفظ "انعام" استعمال کر کے مختلف افراد میں تقسیم کرتی ہے۔
لہذا اس میں سود کا گند بھی شامل ہے ۔
اسی طرح جوئے کی جس طرح اور بہت سی اقسام ہیں انہی میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ مختلف افراد ایک جیسی رقم ایک ہی کام پر لگائیں اور ان میں سے کسی کو منافع زیادہ حاصل ہو اور کسی کو کم یا کسی کو ملے اور کسی کو نہ ملے ، پرائزبانڈز میں یہی عمل کار فرما ہوتا ہے لہذا اس میں جوا بھی ہے ۔
اور پھر ان پرائز بانڈز کو آگے سے آگے بیچا جاتا ہے ۔ یعنی اصل زر بائع کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اسکی رسید ہوتی ہے اور وہ اس رسید کو ہی فروخت کردیتا ہے ۔
یہ بھی شریعت اسلامیہ میں ممنوعہ کام ہے ۔
ان تین بڑی بڑی قباحتوں کی بناء پر یہ بانڈز اور انکا کارو بار
ناجائز و حرام ہیں ۔
فتوی کمیٹی
⫸ ایک مسئلہ
۔﹌﹌﹌﹌﹌﹌
80,000کے دو پراہزبونڈ لیے تھےجب لیے تو مجھےنہیں پتہ تھا کے اس پہ بینک سال بعد منافع دیتا ہےمجھے ہر سال بعد بینک1000 روپے دیتا ہے کیا یہ پیسے میرے لیے حلال ہے ؟؟
⫸جس کام کی بنیاد ہی حرام ہو اس سے حلال کی توقع عبث ہے ۔ انعامی بانڈز یا پرائز بانڈز بذاتِ خود حرام ہیں پھر ان پر ملنے والا پیسہ یا ان اسکیمز سے دوسرے فوائد ہر گز جائز نہیں ہوسکتے ۔ لہٰذا ہم آپ کو اس سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں ۔ اس پر سالانہ ماہانہ پیسہ تو دور کی بات ہے ، خود اس قباحت سے دور رہنا ضروری ہے ۔ آج کے اس دور میں جبکہ اوامر تضہیک کے زمرے میں ڈال دیے گئے ہیں اور نواہی کے لیے حیلے بہانے اور فنکاریاں تراش لی گئی ہیں ، لائق ہے ہر ذی شعور کو کہ اس نوعیت کی اسکیمز پر تحقیق کریں ، تاکہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں پر استقامت برقرار رہے
آئیے سب سے پہلے آپ جانیے کہ پرائز بانڈز کیا ہوتے ہیں
انعامی بانڈز کے حرام اور ناجائز ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے کیونکہ اس میں سود
اور جوا دونوں شامل ہیں۔
یہ دراصل ایک رسید ہوتی ہے جسے بیچ کر درحقیقت حکومت عوام سے قرض لیتی ہے، اور
بانڈز کے نام سے قرض کی رسید جاری کی جاتی ہے ، لوگوں کو قرض دینے پر ابھارنے کے
لیے یہ حکومتی اسکیم ہے کہ پرائز بانڈ خرید نے والوں کو ان کی اصل رقم کی واپسی کے
ساتھ کچھ اضافی رقم بھی بطور انعام دی جاتی ہے ،لیکن تمام قرض دہندگان کو نہیں،
بلکہ وہ رقم بذریعہ قرعہ اندازی بعض خریداروں کو دی جاتی ہے ، اس میں سے جو رقم
ملتی ہے ،وہ یقینی طور پرسود ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
اس میں سود ، جوا ، بیع ما لا یملک ، تینوں قباحتیں شامل ہیں ۔حکومت عوام سے لی
گئی اس رقم کو سودی و غیر سودی کاروبار میں لگاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود
کو لفظ "انعام" استعمال کر کے مختلف افراد میں تقسیم کرتی ہے۔
ان تین بڑی بڑی قباحتوں کی بناء پر یہ بانڈز اور انکا کارو بار ناجائز و حرام ہیں
۔
الشیخ محترم رفیق طاھر حفظہ اللہ سے سوال پوچھا گیا
کچھ اہل سنت کے علما ء اس کو حلال کہتے ھیں ۔ اور وہ اس کی یہ دلیل
پیش کرتے ھیں کے ناجائز ہونے کے دو اسباب ہو سکتے ہیں جو ان میں نہیں پائے جاتے۔
سود
جوا
پرائز بانڈ میں سود نہیں پایا جاتا کیونکہ " سود قرض پر متعین اضافہ بطور شرط
ہوتا ہے۔ جبکہ 200، 500، 1000 روپے والے بانڈ پر لاکھوں روپے کا انعام نکل آنا یہ
شرح سود دینا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ اس کے ناجائز ہونے کا دوسرا سبب جوا
ہوتا ہے وہ بھی یہاں نہیں پایا جاتا کیونکہ جوئے میں ساری رقم ڈوب جاتی ہے یا پھر
کئی گنا زیادہ آ جاتی ہے۔
مفتی الشیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ نے اسکے جواب میں کہا
" یہ دونوں قباحتیں اس میں موجود ہیں ۔ جوا بھی اور سود بھی !
مختلف لوگ ایک برابر رقم لگاتے ہیں لیکن نتیجہ کسی کو زیادہ اور کسی کو کم اور کسی
کو کچھ بھی نہیں ملتا ۔ لہذا یہ جوا ہے ۔ اور سارے ہی یہ سوچ کر بانڈ لیتے ہیں کہ
شاید میرا انعام نکل آئے , نکل آئے تو واہ واہ نہ نکلے تو ...... اور یہ کیفیت بھی
جوا ہونے کی بین دلیل ہے ۔ پھر رقم ادھار دے کر نقصان میں شرکت کے بغیر نفع حاصل
کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہ غیر طے شدہ سود ہے ۔ "
الشیخ مزید کہتے ہیں :
ان انعامی بانڈز میں سود ، جوا ، بیع ما لا یملک ، تینوں قباحتیں
شامل ہیں ۔
اس پاکستان کی حکومت جو یہود کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے سودستان بناتی چلی جارہی
ہے اس رقم کو سودی و غیر سودی کارو بار میں لگاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود
کو لفظ "انعام" استعمال کر کے مختلف افراد میں تقسیم کرتی ہے۔
لہذا اس میں سود کا گند بھی شامل ہے ۔
اسی طرح جوئے کی جسطرح اور بہت سی اقسام ہیں انہی میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ
مختلف افراد ایک جیسی رقم ایک ہی کام پر لگائیں اور ان میں سے کسی کو منافع زیادہ
حاصل ہو اور کسی کو کم یا کسی کو ملے اور کسی کو نہ ملے ، پرائزبانڈز میں یہی عمل
کار فرما ہوتا ہے لہذا اس میں جوا بھی ہے ۔
اور پھر ان پرائز بانڈز کو آگے سے آگے بیچا جاتا ہے ۔ یعنی اصل زر بائع کے پاس
نہیں ہوتا بلکہ اسکی رسید ہوتی ہے اور وہ اس رسید کو ہی فروخت کردیتا ہے ۔
یہ بھی شریعت اسلامیہ میں ممنوعہ کام ہے ۔
ان تین بڑی بڑی قباحتوں کی بناء پر یہ بانڈز اور انکا کارو بار ناجائز و حرام ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیے فتاویٰ اصحاب الحدیث کی جلد 1 ، اور صفحہ نمبر 264 پر
حکومت کی طرف سے جاری کردہ انعامی سکیمیں شرعاًناجائز اور حرام ہیں کیوں کہ یہ جوئے کی مختلف اقسام ہیں جسے قرآن نے حرام پلید اور شیطانی عمل قراردیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بلاشبہ شراب جوا بتوں کے نام کی چیزیں اور تیروں کے زریعے قسمت آزمائی پلید اور شیطانی کام ہیں۔ان سے پرہیز کرو۔''(5/المائدۃ :90)
دور جاہلیت میں جوئے کی متعدد صورتیں تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ کعبہ میں رکھے ہوئے چند مخصوص تیروں کے زریعے مشترکہ مال تقسیم کیاجاتا تھا۔ اس طرح کہ قرعہ اندازی کے زریعے جو تیر جس کے نام نکل آیا اور اس پرجتنا حصہ لکھا ہوتا وہ اسے مل جاتا بعض خالی تیر نکلنے کی صورت میں وہ شخص بالکل محروم رہتا ایسا کرنے سے کچھ لوگ حصہ پاتے اور کچھ بالکل تہی دست رہتے۔اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ قرآن کی نظر میں اس قسم کے تمام کام حرام ہیں۔جن میں تقسیم کا دارومدار کسی ایسے امر پررکھاجائے جس کے زریعے دوسروں کا مال کسی ایک شخص یا چند اشخاص کی جیبوں میں چلاجائے۔دریافت کردہ انعامی سکیموں میں یہ خرابی بدرجہ اتم موجود ہے۔لہذا ان کے حرام اور ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں
امام ابوبکر حصاص حضرت ابن عباس رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ''مخاطر وجوا ہے۔''(احکام القرآن :ص 1/329)
دوسرے مقام پر جوئے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:
''جوئے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو فکر اور اندیشے کی بنا پرمال کا مالک بنادیا جائے۔(احکام القرآن :ج11'465)
یعنی نتائج سے قبل کسی موہوم خطرہ کے پیش نظر فکر اور اندیشے میں مبتلا ہونا ہے۔ کہ اسے کیا ملے گا۔کم یازیادہ یا محروم رہے گا۔جو ئے میں جو رقم ملتی ہے۔وہ محنت یا کسی خدمت کا صلہ نہیں ہوتی۔بلکہ محض اتفاقی امور پر ا س کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔بعینہ یہ صورت حال انعامی سکیموں میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ اسے انعام کہہ کر جائز سمجھتے ہیں حالانکہ اس طرح کسی کو دی جانے والی رقم کو کسی صورت میں انعام نہیں کیاجاسکتا کیونکہ :
➊ ۔انعام حسن کی کارگردگی یا اعلیٰ خدمات کاصلہ ہوتا ہے جبکہ اس میں ایسا نہیں ہوتا۔
➋ ۔انعام حاصل کرنے والے سے کچھ وصول نہیں کیا جاتا جبکہ انعامی سکیموں میں شمولیت کے لئے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔
➌ ۔انعام میں کچھ وجوہ ترجیح ہوتی ہے۔ جب ان سکیموں میں کامیابی کی بنیاد محض ''اتفاق'' ہے۔
اس کاروبار کے حرام ہونے کے لئے یہ کافی ہے۔کہ اس میں جمع شدہ رقم سے کچھ حصہ تقسیم کرکے باقی رقم ہڑپ کرجانا لوگوں کا مال ناجائز زرائع سے کھانا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سےمنع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔''
(4/النساء :29)
لہذا جن حضرات نے سے جوئے کی قسم قرار دیتے ہوئے حرام اور ناجائز کہا ہے وہ برحق اور ان کا موقف بالکل صحیح اور درست ہے۔قسمت آزمائی کا سہارا لےکر اسے درست کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ قسمت آزمائی جس کی بنیاد محض و وہم گمان اور اتفاقی امر پر ہو وہ ناجائز ہے جیسا کہ قرآن کریم میں تیروں کے زریعے قسمت آزمائی کو حرام ٹھرایا گیا ہے فرمان ربانی ہے:
''تمہارے لئے یہ بھی حرام ہے۔ کہ تم پانسوں کے زریعے اپنی قسمت
معلوم کرو۔''
(5/المائدہ :3)
اس کے علاوہ اسلام میں قرعہ اندازی کی وہ سادہ سی صورت کو جائز کہا
گیا ہے جس میں دو مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان فیصلہ کیاجاتا ہے۔لہذا ایسی
قرعہ اندازی جس میں قرعہ ڈالنے والوں کے حقوق مساوی نہ ہوں بلکہ صرف سکیم میں
شمولیت کی وجہ سے ان کا حق تسلیم کیا جائے اسے کماراور جوا کہا جاتاہے۔ ایک مسلمان
کے لئے ان سے بچنا ضروری ہے۔
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا
مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه
بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ
تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ
عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Post a Comment